منگل – 19 رمضان 1428 – 10 اسوج 1929 – 02 اکتوبر 2007
شاعری کی دنیا میں ناصر کاظمی ایک ایسا نام ہے کہ جس سے شدت احساس منسلک یہں۔ ایک بہت واضع احساس محرومی۔ زندگی کی تلخیوں کا اس طرح ذکر کہ ان سے مانوسی کا شائبہ۔ افسوس، بہت افسوس۔ اور ایک ملال جو کہ ہر طرف چھایا ہوتا ہے۔ جیسے کہ سردی کی صبح اکیلے گزاری جائے اور بالکل سکوت میں دل ڈوب رہا ہو۔
جب ذرا تیز ہوا ہوتی ہے
کیسی سنسان فضا ہوتی ہے
ہم نے دیکھے ہیں وہ سناٹے بھی
جب ہر اک سانس صدا ہوتی ہے
دل کا یہ ہال ہوا تیرے بعد
جیسے ویران سرا ہوتی ہے
رونا آتا ہے ہمیں بھی لیکن
اس میں توہین وفا ہوتی ہے
منہ اندھیرے کبھی اٹھ کر دیکھو
کیا تر و تازہ ہوا ہوتی ہے
اجنبی دھیان کی ہر موج کے ساتھ
کس قدر تیز ہوا ہوتی ہے
غم کی بے نور گزرکاہوں میں
اک کرن ذوق فزا ہوتی ہے
غمگسار سفر راہ وفا
مژہ آبلہ پا ہوتی ہے
گلشن فکر کی منہ بند کلی
شب ماہتاب میں وا ہوتی ہے
جب نکلتی ہے نگار شب گل
منہ پہ شبنم کی روا ہوتی ہے
حادثہ ہے کہ خزاں سے پہلے
بوئے گل گل سے جدا ہوتی ہے
اک نیا دور جنم لیتا ہے
ایک تہزیب فنا ہوتی ہے
جب کوئی غم نہیں ہوتا ناصر
بے کلی دل کے سوا ہوتی ہے
I can’t read this ): I don’t know my own mother tongue ) :